Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۴(کتاب الحظر والاباحۃ)
2 - 160
اقول:(میں کہتاہوں ۔ت) بلکہ یہاں ایک درجہ اور وجہ ادق واعمق ہے صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں رب العزت تبارک وتعالی فرماتاہے: لایزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ فاذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی بیصر بہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا۱؂۔ یعنی میرا بندہ بذریعہ نوافل میری نزدیکی چاہتا رہتاہے یہاں تک کہ میرا محبوب ہوجاتاہے پھر جب میں اسے دوست رکھتا ہوں تو میں خود اس کاوہ کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی وہ آنکھ ہوجاتاہوں جس سے دیکھتا ہے اور اس کا وہ ہاتھ جس سے کوئی چیز پکڑتا ہے اور اس کا وہ پاؤں جس سے وہ چلتاہے انتہی ۔
 (۱؎ صحیح البخاری     باب کیف کان بدء الوحی الخ      قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲/ ۹۶۳)
اب کہئے کون کہتا اور کون سنتا ہے ،آواز تو شجرہ طور سے آتی ہے مگر لاواللہ پیڑ نےنہ کہا انی انا اللہ رب العالمین ۲؂(یقیناً میں ہی تمام جہانوں کا پروردگار اللہ تعالی ہوں ۔ت) 0
 (۲؂القرآن الکریم    ۲۸/ ۳۰ )
گفتہ او گفتہ اللہ بود  	گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
 (اس کاارشاد درحقیقت اللہ تعالی کاارشاد ہے اگرچہ بظاہر اللہ تعالی کے بندے کے منہ سے نکلے ۔ت)
یہی حال سننے کا ہے وللہ الحجۃ البالغۃ (اور خدا ہی کے لیے کامل دلیل ہے۔ت ) مگر اللہ اللہ یہ عباد اللہ کبریت احمروکوہ یاقوت ہیں اور نادر احکام شرعیہ کی بنانہیں تو ان کا حال مفید جواز یاحکم تحریم میں قید نہیں ہو سکتا ،
کماافادہ المولی المحقق حیث اطلق سیدی کمال الدین محمدبن الہمام رحمۃ اللہ تعالی علیہ فی اٰخر الحج من فتح القدیر فی مسئلۃ الجواز ۔
جیساکہ مولی المحقق نے اس کا افادہ بیان کیا چنانچہ میرے آقا ورہنما کمال الدین محمد بن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القدیر بحث حج کے آخر پر مسئلہ جواز میں اس کو مطلق بیان فرمایا (ت) 

نہ یہ مدعیان خامکار ان کے مثل ہیں نہ بے بلوغ مرتبہ محفوظیت نفس پر اعتماد جائز ،

فانھااکذب مایکون اذا حلفت فکیف اذا وعدت ۔جب تو قسم کھائے تو جھوٹ ہوتاہے تو تیرے وعدے کاکیا حال ہوگا ۔(ت)
رجماً بالغیب کسی کو ایسا ٹھہرالینا صحیح ،ہاں یہ احتمال صرف اتنا کام دے گا کہ جہاں اسکا انتفا معلوم نہ ہو تحسین ظن کو ہاتھ سے نہ دیجئے اور بے ضرورت شرعی ذات فاعل سے بحث نہ کیجئے ،
ھذا ھوالانصاف فی امثال الباب واللہ الھادی بالصواب ۔
امثال باب میں یہی انصاف ہے،واللہ الہادی بالصواب ۔(ت)
سماع مجرد بے مزامیر، اس کی چند صورتیں ہیں:

اول رنڈیوں ،ڈومنیوں ،محل فتنہ امردوں کاگانا۔

دوم جو چیز گائی جائے معصیت پرمشتمل ہو ،مثلافحش یاکذب یا کسی مسلمان یا ذمی کی ہجو یا شراب وزنا وغیرہ فسقیات کی ترغیب یا کسی زندہ عورت خواہ امردکی بالیقین تعریف حسن یا کسی معین عورت کا اگرچہ مردہ ہو ایسا ذکر جس سے اس کے اقارب احبا کو حیا وعار آئے ۔

سوم بطور لہوولعب سنا جائے اگرچہ اس میں کوئی ذکر مذموم نہ ہو ۔تینوں صورتیں ممنوع ہیں الاخیرتان ذاتا والاولی ذریعۃ حقیقۃ (آخری دو بلحاظ ذات اور پہلی درحقیقت ذریعہ ہے۔ت) ایسا ہی گانالہو الحدیث ہے اس کی تحریم میں اور کچھ نہ ہو تو صرف حدیث کل لعب ابن اٰدم حرام الا ثلثۃ ۱؂ ( ابن آدم کا ہر کھیل حرام ہے سوائے تین کھیلوں کے ۔ت) کافی ہے ،
 (۱؎ جامع الترمذی     ابواب الجہاد          باب ماجاء فی فضل الرمی فی سبیل اللہ      امین کمپنی دہلی    ۱/ ۱۹۷)

(سنن ابن ماجہ    ابواب الجہاد    باب  فی الرمی فی سبیل اللہ         ص ۲۰۷)
ان کے علاوہ وہ گانا جس میں نہ مزامیر ہوں نہ گانے والے محل فتنہ ،نہ لہو ولعب مقصود نہ کوئی ناجائز کلام بلکہ سادے عاشقانہ گیت ،غزلیں ،ذکر باغ وبہار وخط وخال ورخ وزلف وحسن وعشق وہجر ووصل و وفائے عشاق وجفائے معشوق وغیرہا امور عشق وتغزل پرمشتمل سنے جائیں تو فساق وفجار واہل شہوات دنیہ کو اس سے بھی روکا جائے گا، وذلک من باب الاحتیاط القاطع ونصح الناصح وسد الذرائع المخصوص بہ ھذا الشرع البارع والدین الفارغ ۔یہ رکاوٹ یقینی احتیاط کے باب سے ہے اس میں خیر خواہ کی خیرخواہی اور ذرائع کی روک تھام موجود ہے جو اس یکتا وفائق شریعت اورخوبصورت دین سے مخصوص ہے۔(ت)
اسی طرح حدیث :
الغناء ینبت النفاق فی القلب کماینبت الماء البقل ،ناظر ۔رواہ ابن ابی الدنیا فی ذم الملاھی عن ابن مسعود والبیھقی فی شعب الایمان۲؂ عن جابر  رضی اللہ تعالی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔
  گانا بجانا دل میں اس طرح نفاق اگاتا ہے جس طرح پانی ساگ پات اگاتا ہے،ناظر ہے محدث ابن ابی الدنیا نے اس کو حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی سند سے اور امام بیھقی نے شعب الایمان میں حضرت جابر  رضی اللہ تعالی عنہ کی سند سے حضور اکرم  صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کی ۔ت)
 (۲؎ شعب الایمان              حدیث ۵۱۰۰          دارالکتب العلمیۃ بیروت           ۴/ ۲۷۹)

(کنز العمال بحوالہ ابن ابی الدنیا    حدیث   ۴۰۶۵۸  مؤسسۃ الرسالہ بیروت     ۱۵/ ۲۱۸)
اور اہل اللہ کے حق میں یقیناً جائز بلکہ مستحب کہئے تو دور نہیں ،گانا کوئی نئی چیز پیدانہیں کرتا بلکہ دبی بات کو ابھارتا ہے جب دل میں بری خواہش بیہودہ آلائشیں ہوں تو انھیں کو ترقی دے گا اور جوپاک مبارک ستھر ے دل شہوات سے خالی اور محبت خدا ورسول سے مملو ہیں ان کے اس شوق محمود وعشق مسعود کو افزائش دے گا وحکم المقدمۃ حکم ماھی مقدمۃ لہ انصافا (مقدمہ کا حکم وہی ہے جو اس چیز کا حکم کہ جس کے لیے مقدمہ وضع کیا گیا ۔ت) ان بندگان خداکے حق میں اسے ایک عظیم دینی کام ٹھہرانا کچھ بے جانہیں ۔
فتاوی خیریہ میں ہے :
لیس فی القدر المذکو ر من السماع مایحرم بنص ولا اجماع وانما الخلاف فی غیر ماعین والنزاع فی سوی مابین وقد قال بجواز السماع من الصحابۃ جم غفیر (الی ان قال) اماسماع السادۃ الصوفیۃ رضی اللہ تعالی عنھم فبمعزل عن ھذا الخلاف بل ومرتفع عن درجۃ الاباحۃ الی رتبۃ المستحب کما صرح بہ غیر واحد من المحققین ۔۱؂
سماع کے متعلق قدر مذکو ر میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کو نص اور اجماع سے حرام ٹھہرائے ہاں البتہ اختلاف اس کے بغیر ہے کہ جس کو معین کیا گیا اور نزاع اس کے علاوہ ہے کہ جس کو بیان کیا گیا اور صحابہ کرام اور تابعین عظام سے اہل علم کے جم غفیر نے سماع کے جواز کا قول نقل کیاہے (یہاں تک فرمایا ) رہاسادات صوفیائے کرام کا سماع تووہ اس اختلاف سے دور ہے بلکہ وہ درجہ اباحت سے رتبہ استحباب تک پہنچا ہو اہے جیساکہ بہت سے اہل تحقیق نے تصریح فرمائی ہے ۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الکراہۃ والاستحسان        دارالمعرفۃ بیروت     ۲/ ۸۴۔۱۸۳)
یہ اس چیز کا بیان تھا جسے عرف میں گانا کہتے ہیں اور اگر اشعار حمد و نعت ومنقبت ووعظ وپند وذکر آخرت بوڑھے یا جوان مرد خوش الحانی سے پڑھیں اوربہ نیت نیک سنے جائیں کہ اسے عرف میں گانا نہیں بلکہ پڑھنا کہتے ہیں تو اس کے منع پر شرع سے اصلا دلیل نہیں، حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا حسا ن بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے خاص مسجد اقدس میں منبر رکھنا اوران کا اس پر کھڑے ہو کر نعت اقدس سنانا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وصحابہ کرام کا استماع فرمانا خود حدیث صحیح بخاری شریف سے واضح اور عرب کے رسم حدی زمانہ صحابہ وتابعین بلکہ عہد اقدس رسالت میں رائج رہنا خوش الحانی رجال کے جواز پر دلیل لائح ،انجشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حدی پر حضور والا صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیہ نے انکار فرمایا بلکہ بلحاظ عورات یا انجشہ روید الاتکسر القواریر ارشاد ہواکہ ان کی آواز دلکش ودل نواز تھی عورتیں نرم ونازک شیشیاں ہیں جنہیں تھوڑی ٹھیس بہت ہوتی ہے ،غرض مدارکار تحقق وتوقع فتنہ ہے ،جہاں فتنہ ثابت وہاں حکم حرمت ،جہاں توقع واندیشہ وہاں بنظر سد ذریعہ حکم ممانعت ،جہاں نہ یہ نہ وہ ،نہ یہ نہ وہ بلکہ بہ نیت محمود استحباب موجود ۔ بحمداللہ تعالی یہ چند سطروں میں تحقیق نفیس ہے کہ ان شاء اللہ العزیز حق اس سے متجاوز نہیں،نسأل اللہ سوی الصراط من دون تفریط والافراط ،واللہ اعلم بالصواب ۔ہم اللہ تعالی سے سیدھی راہ کاسوال کرتے ہیں جوافراط وتفریط سے محفوظ ہو ،اللہ تعالی راہ صواب کو خوب جاننے والا ہے ۔(ت)
 (۱؂صحیح مسلم         کتاب القدر        باب رحمتہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الخ      قدیمی کتب خانہ کراچی  ۲/ ۲۵۵)
Flag Counter